JavaScript is not enabled!...Please enable javascript in your browser

جافا سكريبت غير ممكن! ... الرجاء تفعيل الجافا سكريبت في متصفحك.


ہوم

موسمیاتی تبدیلیاں اور اقوامِ متحدہ کا کردار: سموگ سے سیلاب تک ایک بڑھتا ہوا خطرہ



  دنیا آج ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑی ہے جہاں انسانی ترقی کی قیمت خود انسانیت کو چکانی پڑ رہی ہے۔ صنعتی انقلاب سے لے کر آج تک کی ترقی نے زمین کو بظاہر جدید تو بنا دیا، مگر اس جدت کی چمک کے پیچھے ماحولیاتی تباہی کا ایک گہرا اندھیرا چھپا ہے۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر گرین ہائو س گیسوں کے بڑھتے اخراج نے زمین کے درجہ حرارت کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔ نتیجہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، موسم غیر متوقع ہو گئے ہیں، سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے، اور دنیا کے کئی خطے شدید قحط یا تباہ کن بارشوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے موسمیاتی تبدیلی کو اس صدی کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔1992میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں منعقد ہونے والی ''ارتھ سمٹ''میں پہلی بار دنیا کے ممالک نے اجتماعی طور پر ماحولیاتی تحفظ کا عزم کیا۔ اسی کانفرنس کے نتیجے میںUNFCCCکا قیام عمل میں آیا، جس نے تمام ممالک کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ گرین ہائو س گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے پالیسیاں بنائیں۔

بعد ازاں'' کیوٹو پروٹوکول''اور پیرس معاہد ہ جیسے عالمی معاہدے سامنے آئے، جن کا بنیادی مقصد زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے زیراہتمام منعقد ہونے والی سالانہCOPکانفرنسزمیں ہر سال دنیا کے رہنما ماحولیاتی بحران پر غور کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے اکثر فیصلے کاغذوں تک محدود رہ جاتے ہیں۔

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، حالانکہ اس کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ مگر قدرتی آفات کی شدت اور تکرار نے پاکستان کو دنیا کے دس سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل کر دیا ہے۔گزشتہ برسوں میں ملک کے جنوبی حصوں میں شدید گرمی اور خشک سالی جبکہ شمالی علاقوں میں غیر معمولی برف باری اور لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات عام ہو چکے ہیں۔2022کے تباہ کن سیلاب نے3کروڑ سے زائد افراد کو متاثر کیا، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں اور معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا۔ اس کے باوجود ماحولیاتی تحفظ پر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔حکومتی سطح پر پالیسیاں تو بنائی جاتی ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد ہمیشہ سوالیہ نشان بن کر رہتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی، جدید زراعتی نظام، اور پانی کے مثر استعمال کی فوری ضرورت ہے۔

حالیہ دنوں میں پنجاب کے کئی اضلاع با لخصوص لاہور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور نوشہرہ ورکاںسموگ کی لپیٹ میں ہیں۔ حدِ نگاہ چند میٹر تک محدود ہے، شہری سانس لینے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں، آنکھوں میں جلن عام ہے، اور اسپتالوں میں سانس کے امراض کے مریضوں کی تعداد بڑھ چکی ہے۔سموگ کی بنیادی وجوہات میں **فصلوں کی باقیات جلانا، گاڑیوں کا دھواں، فیکٹریوں کا اخراج، اور کوڑا کرکٹ جلانا** شامل ہیں۔ فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے سے فضا میں کاربن کے ذرات پھیل جاتے ہیں جو نمی کے ساتھ مل کر زہریلا دھندلا جال بناتے ہیں۔ اس دوران درجہ حرارت کم ہونے سے یہ آلودہ ہوا زمین کے قریب رہتی ہے اور انسانوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔حکومت نے وقتی طور پر اسکول بند کر کے یا جرمانے عائد کر کے مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کی، لیکن یہ اقدامات عارضی ہیں۔ جب تک شجرکاری، صاف ایندھن، پبلک ٹرانسپورٹ کے فروغ، اور انڈسٹریل ویسٹ کے کنٹرول جیسے پائیدار اقدامات نہیں کیے جائیں گے، سموگ کا عفریت ہر سال شدت اختیار کرتا رہے گا۔

گزشتہ دنوں ہونے والی غیر معمولی بارشوں نے ایک بار پھر ملک کے کئی حصوں کو سیلاب کی لپیٹ میں لے لیا۔ دریا بپھر گئے، پل بہہ گئے، سینکڑوں گھر منہدم ہو گئے اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے۔ ان بارشوں نے ایک بار پھر حکومتی منصوبہ بندی اور ایمرجنسی رسپانس پر سوال اٹھایا ہے۔دوسری طرف شمالی علاقہ جات میں گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے اور گلیشیئر بلاسٹ کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا تو آئندہ20برسوں میں ہمالیہ اور قراقرم کے کئی گلیشیئرز مکمل طور پر ختم ہو سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف دریائی نظام کے لیے تباہ کن ہو گا بلکہ ملک کی زراعت اور پینے کے پانی کے وسائل پر بھی گہرے اثرات ڈالے گا۔

دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی اب محض سائنسی بحث نہیں بلکہ انسانی بقا کا مسئلہ بن چکی ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ کب تک بین الاقوامی امداد کا منتظر رہے گا؟ ضروری ہے کہ ہم خود اپنے وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔

حکومت کو چاہیے کہ:اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی معاہدوں پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کرے۔بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں کو سیاسی نہیں بلکہ قومی مہم کے طور پر اپنایا جائے۔ ماحولیاتی تعلیم کو اسکولوں اور کالجوں کے نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے۔گاڑیوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے الیکٹرک وہیکلز اور پبلک ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا جائے۔انڈسٹریز کے فضلات کے لیے سخت مانیٹرنگ سسٹم نافذ کیا جائے۔

اگر ہم نے آج عملی قدم نہ اٹھایا تو آنے والی نسلیں ایک ایسے ماحول میں سانس لیں گی جہاں صاف ہوا ایک خواب بن چکی ہوگی۔ موسمیاتی تبدیلی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔ اقوامِ متحدہ نے راستہ دکھا دیا ہے، اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اس زمین کے محافظ بننا چاہتے ہیں یا اس کے مجرم۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زمین ہماری نہیں، ہم زمین کے ہیں۔ اگر ہم نے اسے سنبھالا نہ تو یہ ہمیں سنبھالنے کے قابل نہیں رہے گی۔


نامای میلپیغام