سولر انقلاب:کسان خوشحال مگر زیر زمین پانی کا شدید بحران
:مریدکے
پنجاب بھر کے ہزاروں کسان اب ڈیزل اور مہنگی سرکاری بجلی چھوڑ کر سورج کی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلز پر انحصار کر رہے ہیں۔
تاہم اس سولر انقلاب کے ساتھ ایک نیا خطرہ بھی پیدا ہو رہا ہے \\\" زیرِ زمین پانی کی تیز رفتار کمی \\\"۔ متعدد کسانوں نے بتایا کہ سولر ٹیوب ویلز کے بعد وہ اپنے کھیتوں کو کہیں زیادہ سیراب کرنے لگے ہیں۔ بعض کسانوں نے دن میں کئی بار پانی لگانے کا سلسلہ شروع کیا ہے ، جسے زرعی اصطلاح میں پلس ایری گیشن کہا جاتا ہے ۔اس سہولت کے نتیجے میں پنجاب میں دھان کی کاشت تیزی سے بڑھی ہے ۔ 2023 سے 2025 کے دوران دھان کے رقبے میں 30 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ کم پانی استعمال کرنے والی مکئی کی کاشت 10 فیصد گھٹ گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ کسان زیادہ پانی مانگنے والی فصلیں اگا رہے ہیں۔پاکستان میں ٹیوب ویلز کی کوئی باقاعدہ رجسٹریشن نہیں ہوتی، اس لیے ان کی درست تعداد معلوم نہیں۔ مگر ماہرین کے اندازوں کے مطابق:4 لاکھ ٹیوب ویلز جو پہلے بجلی سے چلتے تھے ، اب سولر پر منتقل ہو چکے ہیں۔کسانوں نے مزید ڈھائی لاکھ نئے سولر ٹیوب ویلز خریدے ہیں۔یوں کل ملا کر پاکستان میں تقریبا ساڑھے 6 لاکھ ٹیوب ویلز سورج کی توانائی سے چل رہے ہیں۔
توانائی کے ماہر عمار حبیب کے مطابق یہ تبدیلی زرعی شعبے میں بجلی کے استعمال کو 2025 میں 45 فیصد کم کر دے گی۔پنجاب کے آبی حکام کی تازہ ترین دستاویزات کے مطابق صوبے کے 6.6 فیصد علاقے میں پانی کی سطح 60 فٹ سے نیچے گر چکی ہے ، جو خطرناک حد قرار دی جاتی ہے ۔مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ:2020 سے 2024 تک پانی کی سطح 25 فیصد زیادہ گر گئی۔وہ علاقے جہاں پانی 80 فٹ سے بھی نیچے جا چکا ہے ، ان کی شرح دگنی ہو گئی ہے ۔ یہ صورتِ حال پاکستان جیسے پہلے سے ہی پانی کی قلت کے شکار ملک کے لیے بڑا خطرہ ہے ۔وفاقی توانائی وزیر اویس لغاری نے جون میں کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ سولر ٹیوب ویلز پانی کو زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق:\\\"کسان پہلے جتنا پانی لیتے تھے ، اب بھی اتنا ہی لے رہے ہیں۔ وہ صرف مہنگے ڈیزل اور بجلی کی جگہ سولر استعمال کر رہے ہیں۔\\\"لیکن جب کسانوں کے بیانات اور دھان کے بڑھتے رقبے کے اعداد و شمار سامنے رکھے تو وزیر موصوف نے کوئی جواب نہیں دیا۔پنجاب کے آبپاشی وزیر محمد کاظم پیرزادہ نے تسلیم کیا کہ:\\\"سولر توانائی ماحول کے لیے اچھی ہے ، مگر اس کا زیرِ زمین پانی پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے ۔\\\"61 سالہ کسان محمد نسیم نے بتایا کہ پچھلے چار سال میں سولر پینلز کی بدولت انہوں نے 20 لاکھ روپے بجلی کے خرچ سے بچائے ۔
ان کی دھان کی پیداوار ہر سال 400 سے 600 کلوگرام بڑھی ہے اور معیار بہتر ہوا ہے ، جس سے زیادہ منافع ملا۔تاہم پینل کی حفاظت بھی ایک چیلنج ہے ۔ نسیم روزانہ شام کو پینلز کھول کر گھر لے جاتے ہیں تاکہ چوری نہ ہو۔38 سالہ چھوٹے کسان رائے عبدالغفور ابھی سولر خریدنے کے لیے رقم جمع کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے :\\\"سولر پینل ہر قیمت پر لگنے چاہئیں۔\\\"کچھ دیہات میں کسانوں نے اجتماعی طور پر پینلز خرید کر انہیں مشترکہ طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ 80 سالہ حاجی اللہ رکھا کے 16 پینلز دو دیگر خاندانوں کے ساتھ مل کر چل رہے ہیں۔ماحولیاتی ماہر عمران ثاقب خالد کے مطابق پاکستان میں اب تک ٹیوب ویلز کی کوئی مکمل میپنگ یا پانی نکالنے کی ریئل ٹائم نگرانی موجود نہیں۔ وہ کہتے ہیں:\\\"یہ سب بغیر منصوبہ بندی کے ہو رہا ہے ۔ اگر پانی نکالنے پر قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں ہماری فصلیں اور خوراک براہِ راست متاثر ہوں گی۔\\\"پنجاب حکومت نے پانی ذخیرہ کرنے اور زیرِ زمین سطح کو بحال کرنے کے لیے 40 سے زائد مقامات پر آبی ذخائر ری چارج پائلٹ منصوبے شروع کیے ہیں۔ اس کے علاوہ پرانے نہری ڈھانچوں جیسے راوی سفون کو بھی بحال کیا جا رہا ہے تاکہ دریاں کے پانی سے زمین کی سیرابی بہتر ہو اور زیرِ زمین پانی پر دبا کم ہو۔