سلامتی کونسل:پاکستان اور اسرائیل میں جھڑپ،قطر کی خودمختاری کا دفاع کرینگے:دفتر خارجہ:جنرل اسمبلی میں دوریاستی حل کی قرارداد منظور
اسلام آباد،نیویارک:قطر پر اسرائیلی حملے کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان اور اسرائیل کے مندوبین میں جھڑپ ہوگئی، پاکستانی مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے اسرائیلی سفیر کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا اسرائیل کا بیان ناقابل قبول اور بے ہودہ ہے۔
غزہ مذاکرات کے اہم ثالث قطرپر حملہ نہ صرف خودمختاری کی خلاف ورزی ہے بلکہ براہِ راست سفارت کاری پر بھی حملہ ہے ۔جبکہ ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا پاکستان کی مشرق وسطی کی صورتحال پر کڑی نظر ہے اور اپنے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے ،قطر کی خود مختاری کا دفاع کریں گے ، دنیا اسرائیل کا احتساب کرے ،سیلاب پر حکومت جب مناسب سمجھے گی مددکی اپیل کریگی،زرداری کا دورہ چین طے شدہ،دیگر ممالک سے مذاکرات وفاقی حکومت کااختیارہے ۔سلامتی کونسل کا اجلاس پاکستان ،الجزائراور صومالیہ کی درخواست پر طلب کیا گیا تھا، جس کی حمایت فرانس اور برطانیہ نے بھی کی۔ عاصم افتخار احمد نے اپنے خطاب کا آغاز اسرائیلی حملے کی سخت مذمت سے کیا اور اسے قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور ڈھٹائی پر مبنی اور غیر قانونی کارروائی قرار دیا۔انہوں نے کہا یہ غیر قانونی اور ڈھٹائی پر مبنی حملہ کوئی الگ واقعہ نہیں بلکہ اسرائیل کی جارحیت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے ایک بڑے اور مستقل سلسلے کا حصہ ہے جو خطے کے امن و استحکام کو کمزور کرتا ہے ۔اسرائیلی حملوں نے ایک رہائشی علاقے کو نشانہ بنایا، جس سے شہریوں کی زندگیاں جان بوجھ کر خطرے میں ڈالی گئیں، لہذا یہ بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔
یہ حملہ سفارت کاری کے لیے براہِ راست چیلنج ہے کیونکہ یہ اس وقت کیا گیا جب غزہ کے حوالے سے حساس مذاکرات ممکنہ کامیابی کی طرف بڑھ رہے تھے ،کسی اہم ثالث کے علاقے اور براہِ راست مذاکرات میں شامل افراد کو نشانہ بنانا دراصل سفارت کاری کو سبوتاژ کرنے ، امن کی کوششوں کو ناکام بنانے اور شہریوں کی مشکلات بڑھانے کی دانستہ کوشش ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا حالیہ دورہ دوحہ قطر کی سلامتی و خودمختاری کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت اور مشرق وسطی میں امن کے لیے عزم کی علامت ہے ۔اسرائیلی حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر بالخصوص آرٹیکل 2(4) کی خلاف ورزی ہے جو کسی ریاست کی علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی کو ممنوع قرار دیتا ہے ۔یہ حملہ اسرائیل کی اس پالیسی کا حصہ ہے جو غزہ، شام، لبنان، ایران اور یمن میں سرحد پار کارروائیوں کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے ، یہ بین الاقوامی قانون کی منظم خلاف ورزی اور خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی اسرائیل کی کھلی پالیسی کی ایک اور مثال ہے ۔
دوسری طرف اسرائیل کے سفیر نے ابتدا میں اپنے خطاب میں پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی مثال دی تاکہ دوحہ پر حملے کا جواز پیش کر سکیں، انہوں نے کہا کہ جب بن لادن کو پاکستان میں ختم کیا گیا تو سوال یہ نہیں تھا کہ غیرملکی سرزمین پر دہشت گرد کو کیوں نشانہ بنایا گیا، سوال یہ تھا کہ ایک دہشت گرد کو پناہ کیوں دی گئی؟ یہی سوال آج بھی اٹھتا ہے ، بن لادن کے لیے کوئی استثنی نہیں تھا، اور حماس کے لیے بھی نہیں ہے ۔اس پر پاکستان نے فوری طور پر جواب دینے کا حق استعمال کیا، سفیر عاصم افتخار احمد نے اس موازنے کو ناقابل قبول اور بے ہودہ قرار دیتے ہوئے کہا اسرائیل اپنی غیر قانونی کارروائیوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے ۔یہ (اسرائیل)اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کا مسلسل خلاف ورزی کرنے والا ایک قابض ہے جو عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور حتی کہ خود اقوام متحدہ کو بھی دھمکاتا ہے ، اور یہ سب کچھ استثنی کے ساتھ کرتا ہے ، حملہ آور ہونے کے باوجود یہ خود کو مظلوم ظاہر کرتا ہے ، مگر آج یہ مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے ۔
بین الاقوامی برادری بخوبی جانتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، القاعدہ بڑی حد تک پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کے باعث ختم ہوئی، اور ہم اس اجتماعی جدوجہد کے لیے پرعزم ہیں۔اس کے جواب میں اسرائیلی سفیر نے کہا پاکستان اور دیگر ممالک دوہرا معیار اپناتے ہیں، ہو سکتا ہے میری باتوں سے انہیں تکلیف پہنچی ہو اور میں اس پر معذرت خواہ ہوں، لیکن میں ہمیشہ حقائق پر بات کرتا ہوں، حقیقت یہ ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں مارا گیا، اور اس پر کسی نے امریکا پر تنقید نہیں کی، جب دوسرے ممالک دہشت گردوں پر حملہ کرتے ہیں تو کوئی ان کی مذمت نہیں کرتا۔آپ اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے کہ نائن الیون ہوا تھا اور نہ ہی یہ حقیقت بدل سکتی ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں تھا اور وہیں مارا گیا، جب آپ ہم پر تنقید کرتے ہیں تو ذرا یہ سوچیں کہ آپ اپنے ملک کے لیے کون سے معیار اپناتے ہیں اور اسرائیل کے لیے کون سے ۔
مبصرین کے مطابق پاکستان نے مذمت کے ساتھ ساتھ قانونی اور سفارتی دلائل کو بھی سامنے رکھا، جن میں نہ صرف حملے کے انسانی نتائج کو اجاگر کیا گیا بلکہ اس کے خطے کے استحکام پر وسیع تر اثرات کو بھی نمایاں کیا گیا، عاصم افتخار نے زور دیا کہ غزہ مذاکرات کے اہم ثالث قطرپر حملہ نہ صرف خودمختاری کی خلاف ورزی ہے بلکہ براہِ راست سفارت کاری پر بھی حملہ ہے ۔دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے اسلام آباد میں پریس بریفنگ میں کہا پاکستان غزہ میں اسرائیلی مظالم کی مذمت کرتا ہے ، پاکستان تنازع فلسطین کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف قطر کا ہنگامی دورہ کیا، پاکستانی قوم برادر ملک قطر کے ساتھ کھڑی ہے ، قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے ، اسرائیل کی جانب سے ثالث ملک قطر کو نشانہ بنانا امن مذاکرات سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے ، پاکستان اور قطر ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہر مشکل وقت میں کھڑے رہے ہیں، وزیراعظم نے قطری قیادت کو پاکستان کی مکمل حمایت اور یکجہتی کا یقین دلایا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا خودمختار ریاستوں پر اسرائیل کے بار بار حملے تشویشناک ہیں اور اسی پس منظر میں عرب اسلامک سمٹ کا اجلاس دوحہ میں بلایا گیا ہے ، پاکستان مشرق وسطی کی صورتحال پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے اور اپنے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے ۔انہوں نے مزید کہا قازقستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا جس میں دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان نے 10 ستمبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کی انسدادِ دہشت گردی سے متعلق ذیلی تنظیم کی صدارت سنبھال لی ہے اور علاقائی و عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر انسدادِ دہشت گردی کی کوششیں جاری رکھے گا۔ترجمان دفتر خارجہ نے کشمیری حریت رہنما شبیر احمد شاہ کو کینسر کے باوجود ضمانت نہ دینے کی بھی مذمت کی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور ترکیہ کے مابین بھرپور تعلقات ہیں جن میں دفاعی تعاون بھی شامل ہے ، ترک وزیر دفاع کا حالیہ دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، صدر مملکت آصف زرداری کے دورہ چین سے متعلق سوال پر وضاحت کی کہ یہ دورہ ہنگامی نوعیت کا نہیں تھا بلکہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ بھارت نے حالیہ سیلابوں سے متعلق پیشگی اطلاع دی مگر ماضی کی طرح تفصیلی معلومات فراہم نہیں کی گئیں اور نہ ہی انڈس واٹر کمشنر فورم سے آگاہ کیا گیا۔علی امین گنڈاپور کے معطل پاسپورٹ سے متعلق سوال پر ترجمان نے کہا کہ اس حوالے سے وزارت داخلہ وضاحت دے سکتی ہے جبکہ بیرونی ممالک سے مذاکرات اور بات چیت وفاقی حکومت کا اختیار ہے ۔انہوں نے واضح کیا کہ سیلاب کے پس منظر میں بین الاقوامی مدد کی اپیل کرنا وفاقی حکومت کا اختیار ہے ، وفاقی حکومت جب مناسب سمجھے گی اپیل کرے گی۔
نیویارک ،غزہ (اے ایف پی ،مانیٹرنگ ڈیسک)اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کے 2 ریاستی حل کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی گئی جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اسرائیلی کابینہ سے غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے پر مشاورت کررہے ہیں ،غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں گزشتہ روز ایک خاندان کے 14افراد سمیت 42فلسطینی شہید ہوگئے ۔تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کے 2 ریاستی حل کی قرارداد میں اسرائیل اور فلسطین کیلئے قابل عمل اور ناقابل واپسی اقدامات پر زور دیا گیا ،جس کے حق میں 142ممالک نے ووٹ دیا جب کہ مخالفت میں 10ووٹ آئے اور 12 ارکان نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔فرانس اور سعودی عرب کی جانب سے پیش کئے جانے والے اس اعلامیہ کی عرب لیگ پہلے ہی توثیق کر چکی ہے اور اقوام متحدہ کے 17 رکن ممالک بشمول کئی عرب ممالک نے اس پر دستخط کئے ہیں۔یہ اعلامیہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کیلئے اجتماعی کارروائی پر زور دیتا ہے تاکہ دو ریاستی حل کے موثر نفاذ کی بنیاد پر اسرائیل فلسطین تنازع کے منصفانہ، پرامن اور دیرپا تصفیے کو حاصل کیا جا سکے ۔
یہ حماس کے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کی بھی مذمت کرتا ہے ، تمام اسیروں کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے اور حماس سے غیر مسلح ہونے اور غزہ کا کنٹرول چھوڑنے کا مطالبہ کرتا ہے ۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے تناظر میں حماس کو غزہ میں اپنی حکمرانی ختم کرنی چاہئے اور ایک خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے مقصد کے مطابق بین الاقوامی تعاون اور حمایت کے ساتھ اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنا ہوں گے ۔دوسری جانب فلسطین کی وزارتِ خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دو ریاستی حل سے متعلق قرارداد کی بھاری اکثریت سے منظوری کا خیرمقدم کیا ہے ۔فلسطینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فلسطین کی ریاست سعودی عرب اور فرانس کی شکر گزار ہے جنہوں نے بین الاقوامی کانفرنس کی صدارت کی اور نیویارک اعلامیے کو عملی منصوبے میں بدلنے کے لیے نمایاں کوششیں کیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو غزہ شہر کا کنٹرول سنبھالنے کیلئے آپریشن کی تیاری کیلئے کابینہ سے سکیورٹی مذاکرات کررہے ہیں ۔سکیورٹی کابینہ کے ارکان فوجی منصوبوں اور غزہ میں درپیش انسانی صورتحال پر تبادلہ خیال بھی کریں گے ۔اسرائیل کے چینل 12 کے مطابق حکومت غزہ کی پٹی سے رضاکارانہ ہجرت کے امریکی منصوبے پر بات کرے گی جبکہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اگلے اتوار کو اپنے دورہ اسرائیل کے دوران اس معاملے پر بات کریں گے ۔غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں، غزہ پر گزشتہ روز حملوں میں 42 فلسطینی شہید ہوگئے ، شہدا میں ایک ہی خاندان کے 14 افراد بھی شامل ہیں۔اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے میں چھاپہ مار کارروائیاں تیز کر دی ہیں جبکہ طولکرم، رام اللہ، ہیبرون اور نابلس میں کئی فلسطینی گرفتار کرلئے گئے ۔ اسرائیلی فورسز نے رام اللہ کے قریب ایک فلسطینی کے گھر پر قبضہ کرکے اسے عارضی فوجی چوکی میں تبدیل کر دیا۔