JavaScript is not enabled!...Please enable javascript in your browser

جافا سكريبت غير ممكن! ... الرجاء تفعيل الجافا سكريبت في متصفحك.


ہوم

عقیدہ ختم نبوت: دین اسلام کی اساس اور بنیاد


 

عقیدہ ختم نبوت: دین اسلام کی اساس اور بنیاد

لاہور: (مولانا قاری محمد سلمان عثمانی) عقیدہ ختم نبوت دین اسلام کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے، یہ دین اسلام کی اساس اور بنیاد ہے، بنیاد مضبوط ہو تو وہ عمارت قائم رہتی ہے اور برقرار رہتی ہے، ورنہ بہت جلد منہدم ہو جاتی ہے، اسی طرح دین اسلام کی بنیاد عقیدہ ختم نبوت پر قائم ہے، اگر یہ عقیدہ ہمارے دلوں میں پختہ ہوگا تو دین اسلام کی بنیاد بھی قائم ومضبوط رہے گی ورنہ اس عقیدے میں تھوڑا سا بھی شک دین اسلام کی عمارت کو ایک ہی جھٹکے میں گرادے گا۔

عقیدہ ختم نبوت کا مطلب ہے کہ نبی کریمۖ کے بعد دنیا میں کوئی بھی نیا نبی پیدا نہیں ہو سکتا، جو شخص اس عقیدہ کو نہیں مانتا وہ قطعا مسلمان کہلانے کے قابل نہیں، لیکن اس امت میں بہت سے بدباطن اور کذابوں نے نبی کریمۖ کی زندگی میں بھی اور آپۖ کے وصال کے بعد بھی نبوت کا دعوی کیا اور کچھ عقل کے مارے بدبختوں نے ان کی اس بات کو مان لیا۔

حضور خاتم النبیینۖ کی حیات مبارکہ کے آخری زمانے میں بعض جھوٹے مدعیان نبوت نے سر اٹھایا اور کفر وارتداد پھیلانے کی مذموم کوشش کی، مگر نبی کریمۖ کی تربیت یافتہ جماعت صحابہ کرام نے آپۖ ہی کے حکم پر ان فتنوں کے خلاف جہاد کر کے انہیں کچل کر رکھ دیا، مسیلمہ کذاب، اسود عنسی اور طلیحہ کو ان کے انجام تک پہنچایا، امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق نے مسیلمہ کذاب کے ارتداد کے خلاف جہاد کر کے قیامت تک تحریکِ تحفظ ختم نبوت کا علم بلند کر دیا۔

ماضی کے مختلف ادوار میں کئی بد بخت افراد نے دعوی نبوت کر کے مسلمانوں میں افتراق پیدا کرنے اور انہیں گمراہ کرنے کی گھناونی حرکتیں کیں، مگر ہر دور میں اہل ایمان اور حق کے طرف داروں نے ان کے خلاف بھرپور مزاحمت کی، منصب ختم نبوت کی حفاظت کی اور مسلمانوں کو گمراہی اور ارتداد سے بچایا، برصغیر میں انیسویں صدی کے دوران جہاں اور بہت سے فتنے اٹھے وہیں ایک فتنہ قادیانیت کے نام سے جھوٹے مدعی نبوت کا بھی ظاہر ہوا، جسے تمام تر سپورٹ اور حمایت انگریز کی حاصل تھی کیونکہ یہ انگریز کا ہی خود کاشتہ پودا تھا، فتنہ قادیانیت کی انگریز نے مکمل آبیاری کی اور اس کو انگریزوں کی جانب سے ہر طرح کی سپورٹ بھی حاصل رہی۔

علمائے اسلام ابتدا ہی سے اس فتنہ کے ناپاک ارادوں کو بھانپ گئے تھے اور روز اول سے ہی اس کے کفر کا فتوی دے چکے تھے، لیکن ضرورت اس بات کی تھی کہ اب اس فتنے کو قانونی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کروا دیا جائے، اس بارے کئی تحریکیں اٹھیں اور اپنا اپنا کام کیا لیکن بعض تحریکیں بعض تاریخوں کو تاریخ بنا دیتی ہیں، جیسے 1953 کی تحریک ختم نبوت نے 7 ستمبر 1974 کو تاریخی بنا دیا۔

7 ستمبر 1974 کا دن عالم اسلام کیلئے بالعموم اور اسلامیانِ پاکستان کیلئے بالخصوص ایک یادگار اور تاریخی موقع کی حیثیت رکھتا ہے، اس دن خلاقِ عالم نے ختم نبوت کیلئے جدوجہد کرنے والے علما، طلبا اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ مجاہدین ختم نبوت اور فدایان ختم الرسلۖ کی بے مثال قربانیوں اور انتھک کاوشوں کے نتیجے میں قادیانی مسئلہ ہمیشہ کیلئے قانونی طور پر حل کر دیا۔

یہ دراصل 1953 کی تحریک ختم نبوت میں تیرہ ہزار شہدا کے بہنے والے مقدس خون کی برکت تھی کہ ان کی قربانیوں کی لاج رکھتے ہوئے مالک کائنات نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے ممبران کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ انہوں نے فتنہ مرزائیت کے دونوں گروپوں قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔

قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا فیصلہ عجلت میں نہیں کیا گیا بلکہ کئی دنوں پر مشتمل طویل بحث و مباحثہ میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد اراکین اسمبلی نے اس اہم مسئلے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے، اس کی حساسیت کا ادراک کرتے ہوئے، اس کے تمام پہلووں کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے اور مرزائیت کے گمراہ کن نظریات کی وجہ سے اسلام کے مجروح ہوتے ہوئے مذہبی تشخص کے پیش نظر انتہائی منصفانہ اور معتدلانہ فیصلہ سنایا جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ پاکستان ایک نظریاتی شناخت رکھنے والا ملک ہے جو کسی بھی اسلام مخالف نظریے کو اتنی آسانی سے پروان نہیں چڑھنے دے سکتا۔

1953 میں ختم نبوت کی جو تحریک چلی تھی وہ ریاستی جبر اور قادیانیوں پر حکومتی سرپرستی کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی لیکن 1974 میں قادیانیت کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر چناب نگر (سابقہ ربوہ) میں ایک دلخراش واقعہ پیش آیا جس کے ردِ عمل میں دوسری بار تحریک چلی جو قادیانیت کے خرمن پر قہربن کر ٹوٹی اور ان کے کفر کے فیصلے پر اختتام پذیر ہوئی۔

وہ واقعہ یہ ہوا کہ ملتان نشتر میڈیکل کالج کے طلبا کا ایک گروپ سیاحتی دورے پر بذریعہ ٹرین پشاور کی طرف روانہ ہوا، جب ٹرین چناب نگر سٹیشن پر آ کر رکی تو قادیانیوں نے ٹرین میں اپنا لٹریچر تقسیم کرنا شروع کر دیا، ان غیرت مند طلبا نے دینی حمیت کی بناپر انہیں لٹریچر تقسیم کرنے سے روکا اور ساتھ ہی ختم نبوت زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے ڈبہ گونج اٹھا۔

ملحدانہ اور گمراہ کن عقائد پر مشتمل مواد بانٹنے والے ان باغیان کو عشاقان مصطفی کا یہ عمل ایک آنکھ نہ بھایا، ان قادیانی اوباشوں نے لڑائی کیلئے اپنے ساتھیوں کو بلالیا لیکن مسافروں اور ٹرین عملے کی مداخلت سے معاملہ رفع دفع ہوگیا، قادیانیوں نے اس کا موثر جواب دینے کیلئے ایک خفیہ حکمت عملی اپنائی، جس کے نقظہ آغاز میں انہوں نے اپنی سی آئی ڈی کے ذریعے ان طلبا کی پشاور سے ملتان واپسی کا معلوم کیا۔

طے یہ ہوا کہ جیسے ہی ٹرین چناب نگر سٹیشن پر پہنچے گی تو پہلے سے تیار مسلح جتھے ان پر حملہ کر کے اپنے انتقامی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے، پروگرام کے مطابق جب ایک ہفتے کے سیاحتی دورے کے بعد یہ طلبا اسی ٹرین کے ذریعے ملتان واپس جاتے ہوئے چناب نگر ریلوے سٹیشن پر رکے تو اس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریل کے اس ڈبے میں پہلے سے موجود قادیانی اوباشوں نے جو نشتر آباد، لالیاں وغیرہ سے خاص طور پر اس مقصد کیلئے سوار ہوئے تھے نے ان نہتے طلبہ پر آہنی راڈوں سے حملہ کر کے انہیں لہولہان کر دیا۔

ناموس رسالتۖ کے ان پہرے داروں پر جبرو استبداد کا یہ واقعہ ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور اس نے ایک عظیم تحریک کی شکل اختیار کر لی، اس واقعہ کو سانحہ ربوہ کا نام دیا گیا، اس غنڈہ گردی کے واقعے پر شدید رد عمل دیتے ہوئے مولانا تاج محمود نے فیصل آباد میں قادیانیوں کے خلاف جلسے اور جلوس کا اہتمام کیا جس کے بعد پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔

سانحہ ربوہ پر ایکشن لینے کیلئے اسمبلی میں تحریک التوا پیش کی گئی جسے 4 جون 1974 کو مسترد کر دیا گیا، حکومت کی طرف سے اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرنے پر محدث العصر مولانا یوسف بنوری نے 9 جون کو بیس جماعتوں کے عمائدین کا اجلاس رکھا جس میں مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ خان، آغا شورش کاشمیری، شیخ جیلانی اور متعدد زعمائے ملت نے شرکت کی۔

اس اجلاس میں بہرصورت عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا عزم مصمم کیا گیا اور مجلس عمل کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ 14 جون کو ملک بھر میں عام ہڑتال ہوگی، قادیانیوں کے نزدیک اس واقعہ کی اتنی اہمیت نہیں تھی، وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ مظاہرین دو چار دن کے بعد خاموش ہو کر گھروں میں بیٹھ جائیں گے لیکن معاملہ ان کی توقع کے بالکل برعکس ہوا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ احتجاج شدت اختیار کرتا گیا۔

ملک میں پیدا شدہ اضطرابی صورتحال نے ارباب اقتدار کیلئے بہت بڑی مشکل کھڑی کر دی اور انہیں اس کے مضبوط، موثر اور دیرپا حل کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنے پر مجبور کر دیا، اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ذاتی دلچسپی کی بنا پر اس مسئلے کو قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر پیش کرنے کا فارمولہ پیش کیا تاکہ اراکین اسمبلی آزادانہ اور جمہوری طریقے سے اسے حل کر سکیں اور جو بھی فیصلہ ہو اس پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔

اس اعلان سے قادیانی حلقوں میں تشویش کی لہردوڑ گئی کیونکہ اپنے کفریہ عقائد اور حالیہ واقعے میں جارحانہ پالیسی اپنانے اور ملک میں پیدا شدہ نئی صورتحال کے تناظر میں وہ سمجھتے تھے کہ یہ فیصلہ بہر صورت ہمارے خلاف آئے گا، اس لئے انہوں نے وزیراعظم بھٹو اور قومی اسمبلی کے جنرل سیکرٹری کو درخواست بھجوائی کہ پارلیمنٹ میں ہمارے عقائد پر بات ہونی ہے تو ہمیں اپنے موقف کو دلائل کے ساتھ پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔

اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے منصب پر مولانا مفتی محمود فائز تھے جن سے مشاورت کے بعد وزیراعظم نے مرزائیوں کے دونوں گروپوں کے سربراہان کو قومی اسمبلی کے فلور پر اپنے عقائد پر بحث کرنے کی اجازت دے دی، اس کے ساتھ ساتھ اس اہم ایشو پر اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خان کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی تشکیل دی جس کی زیر صدارت پورا مہینہ وقفے وقفے سے اجلاس ہوتے رہے اور فریقین کی آرا سامنے آتی رہیں۔

اس سلسلے کا پہلا اجلاس 5 اگست کو ہوا، جس میں قادیانی گروپ کے تیسرے سربراہ مرزا ناصر احمد پر جرح ہوئی، تمام ممبران اسمبلی کو یہ مکمل اختیار دیا گیا کہ وہ اس مسئلہ سے متعلق جو سوال کرنا چاہیں وہ اس وقت پاکستان کے اٹارنی جنرل جناب یحیی بختیار کے ذریعے سے کر سکتے ہیں۔

مولانا مفتی محمود اور مجاہد ملت مولانا غلام غوث ہزاروی مرزا ناصر کی طرف سے پیش کئے جانے والے دلائل کا جواب دیتے، یہ جرح 24 اگست کو مکمل ہوئی، یہ کل 20 دن بنتے ہیں جن میں 11 اگست سے 19 اگست تک یعنی 9 دن اسمبلی کی کارروائی معطل رہی۔

یوں یہ جرح گیارہ دن بنتی ہے، اس کے تین دن بعد 27 اور 28 اگست کو لاہوری گروپ پرجرح ہوئی جس میں اس گروپ کے تین بڑے گرو صدرالدین لاہوری، مسعود بیگ لاہوری اورعبدالمنان لاہوری پیش ہوئے، یہ جرح دو دن جاری رہی، اس طرح کل 13 دن میں یہ جرح اپنے اختتام کو پہنچی، 31 اگست کو رکن اسمبلی مولانا عبدالحکیم نے مسئلہ ختم نبوت پر مولانا غلام غوث ہزاروی کا تیار کردہ محضر نامہ پڑھا۔

7 ستمبر کو اڑھائی بجے قومی اسمبلی کے اجلاس کا آغازہوا، وزیر قانون وپارلیمانی امور عبدالحفیظ پیرزادہ نے تین بج کر چالیس منٹ پر مختصر ابتدائی کلمات کے بعد اپنے سمیت مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد، غلام فاروق، چودھری ظہور الہی اور سردار مولا بخش سومرو کی طرف سے قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی قرارداد پڑھ کر سنائی، جس کا مضمون یہ تھا جو شخص خاتم النبیین محمدۖ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکھتا ہو اور محمدۖ کے بعد کسی بھی معنی مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعوی کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہوو ہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔

اس کے بعد جب اس قرارداد پر ووٹنگ ہوئی تو کوئی ووٹ بھی اس کے خلاف نہ آیا، گویا یہ فیصلہ اکثریتِ رائے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اجتماعی اور متفقہ رائے سے کیا گیا، سپیکر کی جانب سے قرارداد منظور ہو جانے کے بعد جب یہ خبر ٹی وی اور ریڈیو پر نشر ہوئی تو یہ ایک تاریخی اور ایمان افروز لمحہ تھا، فرط جذبات میں آنکھوں سے آنسو رواں تھے، ہر طرف مبارکبادی کا سلسلہ جاری تھا اور 1953 کے شہدا کی قربانیوں کے نتیجے میں آج امت مسلمہ کو یہ مبارک دن دیکھنا نصیب ہوا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ختم نبوت کے تحفظ کی اس تحریک میں شہید ہونے والے شہدا کے درجات کو بلند فرمائے اور اس تحریک میں کسی بھی طرح حصہ لینے والے افراد کی کاوشوں کو قبول فرما کر ان کے درجات کی بلندی کا سبب بنائے۔ آمین!


نامای میلپیغام