ازقلم: چودھری طارق
بے نظیر بھٹو: جرات، اتحاد اور قربانی کی علامت۔
بے نظیر بھٹو پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک ایسی شخصیت ہیں، جنہوں نے اپنی بصیرت، دلیری، اور بے مثال قیادت سے دنیا بھر میں اپنا منفرد مقام بنایا۔ وہ صرف پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم نہیں تھیں، بلکہ ایک ایسی رہنما تھیں جنہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنے عوام کے حقوق کی جنگ لڑی اور اتحاد کی علامت بنیں۔ ان کی زندگی جدوجہد، قربانی اور عزم کی داستان ہے، جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔بے نظیر بھٹو نے اپنی سیاست کا آغاز ایسے وقت میں کیا، جب ملک مارشل لا کی گرفت میں تھا اور ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا تھا۔ انہوں نے نہ صرف اپنے والد کی سیاسی وراثت کو سنبھالا بلکہ آمریت کے خلاف کھل کر آواز بلند کی۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، جلاوطنی کا سامنا کیا، لیکن اپنے نظریے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں۔ ان کی دلیری اس وقت عروج پر تھی جب انہوں نے 1988 میں پاکستان کی وزیراعظم بن کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ان کی سیاست کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے ملک کے تمام صوبوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی۔ وہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کی علامت بنیں۔ ان کا نعرہ "روٹی، کپڑا اور مکان" عوامی فلاح کی ترجمانی کرتا تھا اور انہوں نے اپنی حکومت میں غریب عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ ان کی قیادت میں خواتین کو زیادہ مواقع فراہم کیے گئے، اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔بے نظیر بھٹو نے خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے کئی اقدامات کیے اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے پالیسیاں نافذ کیں۔ ان کی حکومت نے تعلیمی میدان میں انقلابی منصوبے متعارف کرائے، جن میں اسکولوں اور کالجز کی تعداد میں اضافہ شامل تھا۔ صحت کے شعبے میں بھی بہتری لانے کی کوشش کی گئی خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ انہوں نے عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر بنایا اور ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کیے۔27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ایک انتخابی جلسے کے دوران دہشت گردی کا نشانہ بن کر وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ان کی شہادت نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پوری قوم کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان تھا۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان میں سیاست کس قدر خطرناک ہے، خاص طور پر ان رہنماں کے لیے جو عوام کے حقوق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔بے نظیر بھٹو کا موازنہ دیگر سیاستدانوں سے کریں تو ان کی سب سے بڑی انفرادیت ان کا دلیری اور عوامی حمایت تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح بے نظیر بھی عوامی سیاست کی علمبردار تھیں لیکن وہ زیادہ سخت حالات میں اپنے نظریے پر قائم رہیں۔ نواز شریف کے مقابلے میں بے نظیر کی سیاست زیادہ جامع تھی کیونکہ انہوں نے ہمیشہ تمام طبقات اور صوبوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی۔ عمران خان کے برعکس بے نظیر کی سیاست کا محور عوامی فلاح و بہبود تھی جبکہ عمران خان زیادہ تر تبدیلی کے نعروں پر مبنی سیاست کرتے ہیں۔بے نظیر بھٹو ایک ایسی رہنما تھیں، جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی خواتین کے لیے ایک مثال بنیں۔ ان کی دلیری، قیادت، اور قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ان کی شہادت نے پاکستان کی سیاست کو ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچایا لیکن ان کی جدوجہد آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دلیری، اتحاد اور قربانی کے بغیر ایک حقیقی رہنما نہیں بن سکتا۔ بے نظیر بھٹو ہمیشہ پاکستان کی تاریخ میں اتحاد، استقامت، اور عوامی خدمت کی علامت کے طور پر یاد رکھی جائیں گی۔